از: جنرل مرزا اسلم بیگ
سابق چیف آف آرمی سٹاف پاکستان
Email: friendsfoundation@live.co.uk
پاکستان پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت کے دور میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے قوم کو متفقہ آئین دیا اور قوم کے نظریہ حیات کا تعین کیا: ‘‘پاکستان کا نظام حکومت جمہوری ہوگا جس کی بنیادیں قرآن و سنہ کے اصولوں پر قائم ہوں گی۔’’ استحکام جمہوریت کیلئے پاکستان پیپلز پارٹی کو ایک مضبوط قومی سیاسی جماعت بنایا اور نظریاتی اثاثے کو مضبوط اور مستحکم رکھنے کیلئے قومی نظریاتی کونسل قائم کی۔ وفاق کی بنیادیں مستحکم ہوئیں لیکن پانچ سالوں کے اندر اندر یہ نظام درہم برہم کر دیا گیا۔ گیارہ سالوں کے بعد جب دوبارہ جمہوری نظام بحال ہوا تو اقتدارمحترمہ بے نظیر بھٹو کے ہاتھوں میں تھا۔ اس نوجوان قیادت سے جو امیدیں وابستہ تھی وہ آپس کی چپقلش کی نذر ہو گئیں۔ سیاسی نظام مفلوج ہوا’ نظریاتی قدریں بے توقیر کر دی گئیں اور پھر ایک ایسا دور آیا کہ نہ جمہوریت رہی اور نہ نظریات۔ ہمارا دینی قبیلہ سیاست اور نظریات کے معاملے سے لا تعلق ہوکر تمام قومی معاملات سے الگ ہوگیا ’جس کے سبب غیر متعلقہ نظریات نے اپنے لئے جگہ بنا لی ہے ۔آج کی موجودہ کشمکش میں سیاست اور نظریات کا یہی الجھاو ’ قومی سلامتی کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔
پیر16مئی کو منعقد ہونے والی پارلیمنٹ کے اجلاس سے امید بندھی تھی کہ بالآخر حکومت اور حزب اختلاف سیاسی معاملات کو پارلیمنٹ کے فورم پر حل کرنےپر آمادہ ہو گئے ہیں لیکن وزیراعظم کی تقریر کے بعد حزب اختلاف نے اچانک پارلیمنٹ کے اجلاس سے واک آوٹ کر کےقوم کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔حزب اختلاف کے اس عمل سے ملک میں نظریاتی ٹکراوکھل کر سامنے آگیا ہےکہ‘‘ اعتدال پسند پاکستانی قوم کو سیکولر اور روشن خیال بنادو۔’’ سیکولر خیال کے حامل لوگ اب پاکستان کے مقتدر اداروں اور حکومتی حلقوں میں اکثریت میں ہیں۔ یہ تصور انہی لوگوں کے ذہنوں میں راسخ ہےجو ناجائز دولت اور رسوخ کے مالک بھی ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان اسی طرح سیکولر ہوجائے جس طرح بنگلہ دیش ہوا ہے۔
یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ اگر دباو اور انتشار کے ذریعے سے حکومت گرانے کی کوشش کی گئی تو بہت ہی خطرناک صورت حال پیدا ہو جائے گی اور بنگلہ دیش جیسی کامیابی بھی حاصل نہ ہو سکے گی کیونکہ بنگلہ دیش کا محل وقوع ہم سے بہت مختلف ہے۔بنگلہ دیش کے اطراف میں سیکولر بھارت ہے اوردوسرےممالک بھی سیکولر ہیں۔جبکہ پاکستان کے ایک طرف انقلابی ایران اور دوسری جانب انقلابی افغانستان ہے جس کے پاکستان میں اثرات نمایاں نظر آتے ہیں اورپاکستان کے اپنے اندر انتہائی مذہبی راسخ العقیدہ گروہ موجود ہے جو اس وقت فعال نہیں ہےاور وہ سیاسی معاملات سے اپنے آپ کو الگ رکھے ہوئے ہے۔ اس کا حکومت بنانے اور بگاڑنے میں کوئی کردار نہیں ہے لیکن اگر کہیں وہ فعال ہو گیا اوریہ طبقہ جاگ گیا تو پڑوسی ممالک کی مداخلت سے اس خطے میں نہایت خوفناک جنگ ہوگی جو انڈونیشیا کی 1965-66 کی خانہ جنگی سے کہیں زیادہ خوفناک ہوگی اور اس کے نتیجے میں خدانخواستہ پاکستان کو یوگوسلاویہ جیسی صورت حال کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
شاید ہمارے دشمنوں کی سازشیں بھی یہی ہیں۔ انہی سازشوں نے کتنے ہی مسلم ممالک کو گذشتہ تیس(30) سالوں میں تباہ کیا ہے۔ عراق’ شام’ افغانستان’ لیبیا’ یمن اور صومالیہ کاحشر دیکھیں’ سوڈان کو دوحصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔شاید ہی کوئی ملک بچا ہو اور اب ایٹمی پاکستان ان کا ہدف ہے۔یہ وہ خطرناک سازش ہے جس سے ہماری عسکری قیادت پوری طرح واقف ہے۔ عسکری قیادت اور اس کی انٹیلی جنس یہ دیکھتی ہے کہ کس طرح سے ہماری جڑوں میں دشمنوں نے گھر بنا لئے ہیں۔ اسی لئے ہماری عسکری قیادت نے اعلان کردیا ہے کہ ان سازشوں میں مت الجھو اور اپنے سیاسی مسائل مل بیٹھ کر حل کرو’ پاناما لیکس ایک سازش ہے۔ لہذا اس سازش کو بے نقاب کرنے کیلئے ٹرمز آف ریفرنس (Terms of Reference – TOR)مل بیٹھ کر طے کرنالازم ہے تاکہ مجرموں کی گرفت ہو سکے۔
اپوزیشن کو غلط فہمی ہے کہ 1980 اور 1990 کی دہائیوں کی طرح باہر سے اشارہ ملے گا اورفوج سیاسی معاملات میں مداخلت کرے گی لیکن اب ایسا نہیں ہوگا کیونکہ فوج کو احساس ہے کہ اگر مداخلت ہوتی ہے تو رہا سہا سسٹم بھی بکھر جائے گا۔ عدلیہ نے بھی ماضی کے نظریہ ضرورت کو ختم کر دیا ہے۔ انہیں بھی احساس ہے کہ وہ ماضی میں اس نظریے کے تحت فوجی حکومتوں کو تحفظ فراہم کرتی رہی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا ہے کہ اسی ٹوٹے پھوٹے جمہوری نظام کو مضبوط بنانا ہے اور اسی میں ہماری فلاح اور ہمارا مستقبل ہے۔ ہمیں اپنی کمزوریاں دور کرنا ہیں۔ اس نظام کو توڑ کرتبدیلی لانے کے نتیجے میں تباہی ہوگی۔ اسی نظام کے اندر رہتے ہوئے اگرجرم ثابت ہوجائے تووزیراعظم کو ہٹائیں’ حکومت بدلیں۔جمہوری طریقہ یہی ہی اور سلامتی کا راستہ بھی یہی ہے۔پارہ چنارکی مثال ہمارے سامنے ہے۔ وہاں فرقہ وارانہ اختلافات ہیں’ نظریاتی اختلافات نہیں ہیں۔ جب وہاں فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھی تو حکومت کا کنٹرول ختم ہو گیا۔پانچ سال تک پاکستان کے ساتھ اس کے راستے بندرہے’ وہاں کے لوگوں نےافغانستان اور ایران سےآئے ہوئےلوگوں کی مدد سےاپنی حکومت بنا لی۔ مجبورا پاک فوج نے بھرپور کاروائی کر کے اس علاقے کو پاکستان میں دوبارہ شامل کیا ہے ۔اس کام میں پاک فوج کو تقریبا دس ماہ لگے ہیں اور بڑی قربانیاں دی ہیں۔ اسی طرح اگر خدانخواستہ پاکستان کے ایک بڑے علاقے میں افراتفری پھیلتی ہے تو کون اسے سنبھالے گا۔فوج کہاں کہاں حالات کو سنبھالے گی۔اس سازش کو حقیقت کا رنگ دینے میں ہمارے اپنے ہی لوگ مصروف ہیں۔ ان کو عقل کے ناخن لینا چاہیئں۔پاکستان کے آئین کی حدود میں حزب اختلاف اور حکومت مل بیٹھ کر ٹرمز آف ریفرنس(TOR) طے کریں۔ عدلیہ نے اپنی شرائط بتا دی ہیں ۔مجرموں کی نشاندھی اور احتساب لازم ہے۔
اس طرح ملک میں سیاسی استحکام تو آجائے گا’ جمہوریت مضبوط ہوگی لیکن قوم کے نظریاتی اثاثے کو تقویت نہیں ملے گی۔ کام بڑا آسان ہے صرف چند مضبوط فیصلوں کی ضرورت ہےجوپارلیمنٹ کے اختیار میں ہے۔ پہلا فیصلہ یہ کرنا ہوگا کہ قومی نظریاتی کونسل میں تبدیلی لائی جائے۔ اس کی سربراہی کسی دینی عالم کے ہاتھ میں نہ ہو بلکہ پارلیمنٹ کسی اعتدال پسند دیندار پڑھے لکھے فرد کا انتخاب کرے جس کی سربراہی میں منتخب ماہرین قانون(Jurists)’ معاشرتی سائنسدان (Social Scientists)’ فلاحی کارکن اور نوجوان ہوں جو اس بات کو یقینی بنائیں کہ دین کی بنیادی تعلیم جس میں فرقوں کا اختلاف نہ ہو ۔پہلی جماعت سے لے کر آٹھویں جماعت تک لازم قرار دیاجائے تاکہ فارغ التحصیل ہونےوالے ہر طالب علم کو ایک مسلمان کی حیثیت سے اپنی شناخت حاصل ہو۔ جہاں تک مجھے علم ہے اس طرح کا دینی نصاب تعلیم قومی نظریاتی کونسل کے پاس موجود ہے لیکن اس پر عمل درآمد کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔۱۹۷۷ء کے بعد جو بھی حکومت آئی ہے اس نے دینی نصاب تعلیم کو آہستہ آہستہ ختم کر دیا ہے۔ ہم نماز’ روزہ اورحج ضرور ادا کرتے رہے لیکن ہماری نوجوان نسل اپنی شناخت کھوتی جارہی ہے۔ یہی ہمارا سب سے بڑا المیہ ہے جو ہماری موجودہ پارلیمنٹ کیلئے بڑا چیلنج ہے۔ اگر یہ تبدیلی منظور نہیں ہے تو آئین بدل دو ۔پاکستان کو ‘اسلامی جمہوریہ پاکستان’ کی بجائے ‘عوامی جمہوریہ پاکستان’ بنا دو’ کیونکہ اس طرح سے آدھا تیتر آدھا بٹیر نظریہ حیات ہمیں تباہی کی طرف لے جا رہا ہے۔